Sahih Al Bukhari, Chapter#1 Hadith#3

Narrated to us Yahya bin Bukair who said narrated to us Al-Laith from (on the authority of) Uquail from Ibn Shihaab from Urwa bin Zubair from (on the authority of) Aisha (RA) mother of the believers who said: The commencement of the Divine Inspiration to Allah’s Apostle was in the form of good dreams which came true like bright day light, and then the love of seclusion was bestowed upon him. He used to go in seclusion in the cave of Hira where he used to worship (Allah alone) continuously for many days before his desire to see his family. He used to take with him the journey food for the stay and then come back to (his wife) Khadija to take his food like-wise again till suddenly the Truth descended upon him while he was in the cave of Hira. The angel came to him and asked him to read. The Prophet replied, “I do not know how to read.” The Prophet added, “The angel caught me (forcefully) and pressed me so hard that I could not bear it any more. He then released me and again asked me to read and I replied, ‘I do not know how to read.’ Thereupon he caught me again and pressed me a second time till I could not bear it any more. He then released me and again asked me to read but again I replied, ‘I do not know how to read (or what shall I read)?’ Thereupon he caught me for the third time and pressed me, and then released me and said, ‘Read in the name of your Lord, who has created (all that exists) has created man from a clot. Read! And your Lord is the Most Generous.” (96.1, 96.2, 96.3) Then Allah’s Apostle returned with the Inspiration and with his heart beating severely. Then he went to Khadija bint Khuwailid and said, “Cover me! Cover me!” They covered him till his fear was over and after that he told her everything that had happened and said, “I fear that something may happen to me.” Khadija replied, “Never! By Allah, Allah will never disgrace you. You keep good relations with your Kith and kin, help the poor and the destitute, serve your guests generously and assist the deserving calamity-afflicted ones.”Khadija then accompanied him to her cousin Waraqa bin Naufal bin Asad bin ‘Abdul ‘Uzza, who, during the PreIslamic Period became a Christian and used to write the writing with Hebrew letters. He would write from the Gospel in Hebrew as much as Allah wished him to write. He was an old man and had lost his eyesight. Khadija said to Waraqa, “Listen to the story of your nephew, O my cousin!” Waraqa asked, “O my nephew! What have you seen?” Allah’s Apostle described whatever he had seen. Waraqa said, “This is the same one who keeps the secrets (angel Gabriel) whom Allah had sent to Moses. I wish I were young and could live up to the time when your people would turn you out.” Allah’s Apostle asked, “Will they drive me out?” Waraqa replied in the affirmative and said, “Anyone (man) who came with something similar to what you have brought was treated with hostility; and if I should remain alive till the day when you will be turned out then I would support you strongly.” But after a few days Waraqa died and the Divine Inspiration was also paused for a while.

See also  Nigerians Protest Against Buhari’s Government In Canada Over worsen Insecurity, Others

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنَّهَا قَالَتْ أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنَ الْوَحْىِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ، فَكَانَ لاَ يَرَى رُؤْيَا إِلاَّ جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ، ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلاَءُ، وَكَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَاءٍ فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ ـ وَهُوَ التَّعَبُّدُ ـ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَى أَهْلِهِ، وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ، فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا، حَتَّى جَاءَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ، فَجَاءَهُ الْمَلَكُ فَقَالَ اقْرَأْ‏.‏ قَالَ ‏”‏ مَا أَنَا بِقَارِئٍ ‏”‏‏.‏ قَالَ ‏”‏ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ‏.‏ قُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ‏.‏ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ اقْرَأْ‏.‏ فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ‏.‏ فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ ‏{‏اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ * خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ * اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأَكْرَمُ‏}‏ ‏”‏‏.‏ فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَرْجُفُ فُؤَادُهُ، فَدَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ رضى الله عنها فَقَالَ ‏”‏ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي ‏”‏‏.‏ فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ، فَقَالَ لِخَدِيجَةَ وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ ‏”‏ لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي ‏”‏‏.‏ فَقَالَتْ خَدِيجَةُ كَلاَّ وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ‏.‏ فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى ابْنَ عَمِّ خَدِيجَةَ ـ وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعِبْرَانِيَّ، فَيَكْتُبُ مِنَ الإِنْجِيلِ بِالْعِبْرَانِيَّةِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ، وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ ـ فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ يَا ابْنَ عَمِّ اسْمَعْ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ‏.‏ فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ يَا ابْنَ أَخِي مَاذَا تَرَى فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم خَبَرَ مَا رَأَى‏.‏ فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي نَزَّلَ اللَّهُ عَلَى مُوسَى صلى الله عليه وسلم يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا، لَيْتَنِي أَكُونُ حَيًّا إِذْ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ‏.‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏”‏ أَوَمُخْرِجِيَّ هُمْ ‏”‏‏.‏ قَالَ نَعَمْ، لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ إِلاَّ عُودِيَ، وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا‏.‏ ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ وَفَتَرَ الْوَحْىُ

See also  Late Capt. Chari Magumeri From Borno Was the first Nigerian to be promoted to the rank of CAPTAIN in British Army (1953) After making a gallant performance in 1st and 2nd WW

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ پر وحی کا آغاز اچھے خوابوں سے ہوا، آپﷺ جو خواب دیکھتے وہ (بیداری میں) صبح کی روشنی کی طرح نمودار ہوتا ، پھر آپﷺ خلوت نشینی کی طرف مائل ہو گئے، اور کئی کئی دنوں کےلیے زادِ راہ لے کر غار حرا میں خلوت نشین ہو جاتے، جب وہ ختم ہو جاتا تو واپس حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی طرف لوٹ آتے،اور مزید زاد راہ کے ساتھ دوبارہ غار حرا تشریف لے جاتے۔(اسی طرح سلسلہ چلتا رہا) یہاں تک کہ آپﷺکے پاس حق آگیا اور آپﷺغار حراء میں ہی موجود تھے،آپﷺکے پاس فرشتہ آیا تو اس نے کہا: پڑھو،آپﷺ نے فرمایا: میں پڑھنا نہیں جانتا، آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ پھر فرشتہ (جبریل) نے پکڑ کرمجھے اتنے زرو سے دبایا کہ میری طاقت جواب دے گئی،پھر مجھ کو چھوڑ دیا اور کہا پڑھو، میں نے کہا: میں پڑھنا نہیں جانتا، انھوں نے مجھ کو پھر پکڑا ،دوسری بار دبایا اتنا کہ میری طاقت نے جواب دے دیا، پھر مجھ کو چھوڑ دیا اور کہا پڑھو میں نے کہا (کیسے پڑھوں) میں پڑھنا نہیں جانتا، انھوں نے پھر مجھ کو پکڑا اور تیسری بار دبوچا پھر مجھ کو چھوڑ دیا اور کہنے لگے: “اقرا باسم ربک الذی خلق” اُس رب کے نام سے پڑھ جس نے (سب چیزیں ) بنائیں انسان کو (خون کی ) پھٹکی سے بنایا ، پڑھ اور تیرا پروردگار بڑے کرم والا ہے۔ اس کے بعد آپﷺ پر خوف کی کیفیت طاری ہو گئی ، اور آپﷺ حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے آئے اور فرمانے لگے: مجھ کو کپڑا اوڑھا دو ،کپڑا اوڑھا دو لوگوں نے آپﷺ کو کپڑا اوڑھا دیا جب آپﷺ کا ڈر جاتا رہا تو آپﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے یہ قصّہ بیان کر کے فرمایا: مجھے اپنی جان کا ڈر ہے، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپﷺ کو تسلی دی کہ قسم اللہ کی! اللہ آپ ﷺکو کبھی رسوا نہیں کرے گا، کیونکہ آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں ، کمزورں کا بوجھ اٹھاتے ہیں،غریبوں کو کما کر دیتے ہیں،مہمان نواز ہیں ، اورمشکل میں حق کا ساتھ دیتے ہیں،پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپﷺ کو ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العزی کے پاس لائیں جو ان کےچچازاد بھائی تھے ، اور زمانہ جاہلیت میں عیسائیت اختیار کر چکے تھے ، اور عبرانی زبان کے کاتب تھے،اور بڑھاپے کی وجہ سے نابینا ہو چکے تھے ، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا: میرے چچا زاد بھائی (ذرا) اپنے بھتیجے( حضرت محمدﷺ) کی بات تو سنو، ورقہ نے آپﷺ سے کہا: میرے بھتیجے کہو تم نے کیا دیکھا، رسول اللہﷺ نے جو دیکھا تھا وہ ان سے بیان کر دیا، تب تو ورقہ کہہ اٹھے یہ تو وہ (اللہ کا) راز دار فرشتہ ہے جس کو اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اتارا تھا، کاش میں اس وقت (تیری پیغمبری کے زمانے میں) جوان ہوتا، کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب تم کو تمہاری قوم (اپنے شہر سے) نکال باہر کرے گی۔رسول اللہﷺ نے فرمایا(سچ) کیا وہ مجھ کو نکال دیں گے ؟ ورقہ نے کہا ہاں(بے شک نکال دیں گے) جب کبھی کسی شخص نے ایسی بات کہی جیسی تم کہتے ہو ،تو لوگ اس کے دشمن ہوگئے اور اگر میں اس دن تک جیتا رہا تو تمھاری پوری مدد کروں گا پھر تھوڑے عرصے بعد ورقہ اللہ کو پیارے ہوگئے، اور وحی آنا بند ہو گئی۔

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*